Wednesday, 17 December 2014

کیا آپ انٹرنیٹ سے پیسے کمانا چاہتے ہیں؟

میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں کے آپ کا یہ خواب اب خواب نہیں رہے گا کیوں کہ میں آپ کو آج انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کاآسان طریقہ بتاؤں گا کہ آپ انٹرنیٹ پر کیسے آن لائن پیسے کما سکتے ہیں اور کتنا کام کرنا پڑیگا۔ انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کے لئے بہت سے کام ہیں، یہ بس آپ پر ہے کہ آپ کس قسم کا کام چاہتے ہو. میں کوئی بہت بڑا کمپیوٹر پروگرامر نہیں ہوں میں بھی ایک عام انٹرنیٹ یوزر ہوں میں 2003ء سے انٹرنیٹ استعمال کررہا ہوں اور بہت سارے کام نظر سے گزرے ہیں پر پچھلے کچھ سالوں سے میں انٹرنیٹ پہ آن لائن کام کر رہا ہوں جس کے بارے میں آج آپ کو بتانے جارہا ہوں، تو میرے بھائیو میں انٹرنیٹ پے جو کام کررہا ہوں اس کو عام زبان میں اشتہارات دیکھنا کہتے ہے، مطلب یہ کہ مجھے اشتہار دیکنے  کے پیسے دئے جاتے ہیں جو میں آپ کو اب بتانے والا ہوں۔ تو دوستو ایک ویب سائٹ ہے clixsense جس کا میں ممبر ہوں اور اس ویب سائٹ سے مجھے پیسے کیوں ملتے ہیں میں آپ کو سب بتاتا بھی ہوں اور سمجھاتا بھی ہوں۔
CLIXSENSE کیا ہے؟
clixsense ایک ویب سائٹ ہے جو لوگوں کو اشتہارات دیکنے  کے پیسے دیتی ہے clixsense نام کی یہ ویب سائٹ سال 2007سے کام کر رہی ہے اور اس کو PTC site کہتے ہیں، PTC کا مطلب paid to click سائٹ ہے۔ مطلب یہ کہ یہ آپ کو اشتہارات دیکنےں کے پیسے دیتے ہیں ۔ clixsense سب سے زیادہ پرانی اور قابل اعتماد ویب سائٹ ہے جو کہ مسلسل کام کر رہی ہے، اور پوری دنیا میں پھیلے اپنے چار ملیں سے زیادہ ممبرز کو 8 ملین ڈالرز سے زیادہ دے چُکی ہے۔ Clixsense بنیادی طور پر Paid To Click ویب سائٹ ہے جس کا مطلب ہے کے آپ کو روزانہ کچھ اشتھارات دیکھنے کے لئے دیئے جاتے ہیں ۔ Clixsense پر اشتھارات دیکھنے کے علاوہ کمانے کے اور بھی ذرائع ہیں، جیسے کہ ClixsGird game ، Completing Taskاور Offer's پوری کرنا شامل ہے۔
یہی خوبی تو ہے جو Clixsense کو بقیہ تمام اس قسم کی سائٹس میں منفرد اور ممتاز بناتی ہے ۔ جو لوگ PTC ویب سائٹ پر کام کا تجربہ رکھتے ہیں اور مایوس ہیں کہ انھیں اس کام کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوا میں اپنے اُن بھائیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ ایک مرتبہ Clixsense کو جوائن کرکے دیکھیں پھر اس میں اور دوسری سائٹس میں فرق کا اندازہ آپ خود لگا لیں گے۔ بلکہ میں تو یہ مانتا ہوں کہ Clixsense کے علاوہ چند ایک سائٹس ہی ہیں جو قابل بھروسہ ہیں اور بقیہ تمام سائٹس دھوکہ باز اور فراڈ ہیں جو آپ کو پسےا نہیں دینگی۔ اور کچھ تو ویسے ہی ایک دو مہینے میں گم ہو جاتیں ہیں(زیادہ تر لوکل سائٹس اس میں شامل ہیں) اور تو اور کچھ آپ کے پسے  کھا جاتی ہیں۔لیکن Clixsense میں ایسی کوئی بات نہیں ہے ،جیسے میں نے پہلے بتایا کہ Clixsenseسال 2007سے لوگوں کو پسے  دے رہی ہے اور وہ بھی بغیر کسی تاخیر کے ۔ اس سائٹ کو جوائن کرنے کے لئے کسی قسم کی رجسٹریشں فیس نہیں ہے۔ تو آپ سوچ کیا رہیں ابھی Clixsense کو جوائن کریں اور آپ بھی آن لائن انٹرنیٹ سے پسے  کمانا شروع کریں ۔
Clixsense کو جوائن کیسے کرنا ہے؟
Clixsense کو جوائن کرنے کا طریقہ کار انتہائی آسان ہے اور آپ نیچے دئے ہوے طریقہ کار سے باآسانی  Clixsense کے ممبر بن سکتے ہیں ۔
1 آن لائن بنک اکاؤنٹ بنائیں۔
سب سے پہلے آپ نے کرنا کیا ہے آپ نے اپنا آن لائن بنک اکاؤنٹ بنانا ہے،آن لائن بنک اکاؤنٹ بنانے کے لئے رجسٹریشں بالکل مفت ہے،اور یہ اکاؤنٹ بنانا آپ کو اس لئے بھی ضروری ہے کہ آپ کی کمائی ہوئی رقم آپ کو اسی سے ملے گی اور پھر یہاں سے آپ اپنی رقم پاکستا ن میں اپنے کسی بھی لوکل بنک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا سکتے ہیں ۔ ویسے تو آن لائن بنک اکاؤنٹ سہولت پاکستان میں کافی کمپنیز دے رہی ہیں پر میں آپ کو Payza پر اکاؤنٹ بنانا تجویز کروں گا۔
Clixsense کا اکاؤنٹ بنائیں۔
اب آپ نے اپنا Clixsense کا اکاؤنٹ بنانا ہے جس کے بارے میں اب میں آپ کو بتانے والا ہوں یہ ویب سائٹ ایک اشتھاری کمپنی ہے جس کو مختلف لوگ اپنے اشتھارات دیتے ہیں پبلسٹی کے لئے کہ اُن کی ویب سائٹ پر زیادہ لوگ آئیں اور اُن کی جو بھی پروڈکٹ ہے اُس کی مشہوری ہو نیز اس کے لئے وہ لوگ Clixsense کو پسےے دیتے ہیں ۔
یہ ویب سائٹ پھر اپنے ممبر کو کچھ پسو ں کے عوض وہ اشتہار دکھاتی ہے اور اُن اشتہار کو دیکھنے بعد Clixsense ٹھوڑے سے پسےے ہمارے اکاؤنٹ میں جمع کر دیتی ہے۔
اگر آپ میرے تجویز کرنے پر Clixsense کو جوائن کر رہے ہیں تو نیچے دیئے ہوے بنر  پر کلک کریں ۔
اوپر دیئے ہوے لنک کو کلک کرنے کے بعد جو پیج کھلے گا وہ clixsense کا ہوم پیج ہو گا آپ نے اسے بھرنا ہے آپ نے اپنا پورا نام، آپ کا ای میل ، اس کے بعد پاسورڈ پھر اس کے بعد آپ نے اپنا جو یوزر نیم ہے وہ لکھ کر سائن اپ ناؤ والا بٹن پریس کریں گے تو اس کے بعد آپ نے جو ای میل دیا تھا اس پر ایک کنفرمیشن میسج ملے گا اس میں آپ کواکاؤنٹ کنفرم کرنے کے لئے  لنک دیا گیا ہوگا جس کو کلک کرنے کے بعد آپ کا اکائونٹ کنفرم کردیا جائے گا۔  اُس کے بعد آپ نے اپنے اکاؤنٹ کی چند سیٹنگز کرنی ہیں اور اکاؤنٹ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
Clixsense پر کام کیسے کرنا ہے؟
Clixsense کو جوائن کرنے کے بعد کام کیسے کرنا ہے اُس کے بارے میں میں آپ کو بتانے والا ہوں۔
جب آپ نے رجسٹریشں مکمل کرلی ہے تو اب آپ Clixsense پر اپنے اکاؤنٹ میں login ہوکر مندرجہ ذیل طریقہ کار کے مطابق کام کا آغاز کر سکتے ہیں:
1۔ روزانہ Clixsense پر آپ کے اکائونٹ میں موجود اشتہارات کو کلک کرنا ہوگا  جس میں دس منٹ ہی لگے گیں اور اتنا وقت تو آپ روزانہ نکال ہی سکتے ہیں۔
2۔اور اگر آ پ کی خواہش ہے کہ آپ زیادہ کمائیں تو آپ کو اپنی ممبرشپ کو اپ گریڈ کرنا پڑیگا جس کے لئے آپ نے 17$ ڈالر ادا کرنے ہوں گے جس سے آپ کو ایک سال کے لئے اسٹنڈہرڈ ممبر سے پریمیئم پر اپ گریڈ کر دیا جائے گا اور آگے آپ اپنی انویسٹ کی ہوئی رقم کو تھوڑے عرصے میں ریکور کر سکتے ہیں اور ساتھ میں اچھا منافع بھی حاصل کر لیں گے ۔(فری ممبر رہتے ہوے بھی آپ اچھی رقم کما سکتے ہیں ضروری نہیں کہ اپگریڈ کریں)۔
3۔آپ اپنے براؤزر میں Clixsense کا toolbar یا ClixAddon کےtools انسٹال کر لیں ، اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ 24 گھنٹوں میں جب بھی کوئی اشتہار دستیاب ہوں گے آپ کو اُسی وقت اپنے براؤزر پر اشتہارات اور ٹاسک نظر آجائیں گے اور بار بار  login نہیں ہونا  پڑے گا۔
عام طور پر ایسے ہوتا ہے کے لوگ بڑے جوش و خروش سے اس کام کو شروع تو کرلیتے ہیں لیکن مستقل مزاجی نا ہونے اور شروع میں کم انکم ہونے پر اس کام کو فضول سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور اسی لئے وہ تمام لوگ اس کام میں ناکام رہتے ہیں۔ہر کام کے لئے شروع میں بہت محنت درکار ہوتی ہے اورجو لوگ یہ محنت کر لیتے ہیں وہ آخر کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایک بات یاد رکھیں کہ Clixsense کویہ سوچ کر ہرگز جوائن نہ کریں کہ آپ راتوں رات امیر ہوجائیں گے یا آپ کو لاکھوں ڈالر مل جائیں گے ۔ہاں اگر آپ مندرجہ بالا باتوں پر عمل کریں تو ماہانہ اچیآ آمدن کمانے کے قابل ہو جائیں گے ۔
Clixsense کو پہلی بار جوائن کرنے کے بعد آپ نے View Advertisement پر کلک کرکے اکاؤنٹ میں موجود تمام Adsکو دیکھنے کے بعد اپنے Referral Link کو جو کہ آپ کے Clixsense کے پہلے پیج پر مل جائے گا ،یہ red color کا لنک ہے ۔اس لنک کو  کاپی کر کے اپنے تمام دوستوں اور جاننے والوں کہ Email کردیں اور Facebook,twitter دوسری سوشل میدیا سائٹس پر اس کو شیئر کر کے اس کی پروموشن کریں ۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب بھی کوئی بندہ آپ کے ریفرل لنک کے ذریعے Clixsense کو جوائن کرے گا  اس کا آپ کو بھی فائدہ ہوگا کہ وہ جتنے  روزانہ کلکس کرے گا اس میں سے کچھ حصہ آپ کو  ملے گا ،اور اس طرح آپ کی آمدن میں بھی اضافہ ہوگا ۔اگر آپ نے کم سے کم 30 کام کرنے والے دوستوں کو جوائن کروالیا تو آپ بہت اچھا کمانے کے قابل ہوجائیں گے ۔ مزید معلومات کے لئے آپ Clixsense forum میں payment proofs کو دیکھ سکتے ہیں ،اور آپ ان لوگوں کو اپنا آئیڈیل بنا کراگر اُتنا نہیں تو  کم از کم اچھی آمدن لینے کے قابل ضرور ہوجائیں گے ۔اور اگر شروع کے کچھ مہینوں میں آمدن زیادہ نا بھی ہو تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے بس اپنی کوششوں کو جاری رکھنا ہے اگر آپ مایوس ہوکر اس کام کو چھوڑدیں گے تو اس سے مجھے یا کسی اور کو کوئی فرق نہیں پڑے گا آپ کو نقصان یہ ہوگا کہ آپ اس مفت کے موقع کو گنوادیں گے اور اپنی پہلے والی روٹین پر واپس آجائیں گے (مطلب یہ کہ دوبارہ انٹرنیٹ پہ youtube پر گانے سنُ رہے ہوں گے ،chating کر رہے ہوں گے ،Moviesدیکھ رہے ہوں گے )لیکن بس کما نہیں رہے ہوں گے ۔تو کیوں نہ اپنے ٹائم کو باقی کام کرنے کے ساتھ ساتھ اگر ایک اچھی  آمدن کا ذریعہ بھی بنا لیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے ؟ اور پھر اس کام میں روزانہ  زیادہ سے زیادہ 20منٹ دینے ہیں جو کہ آپ باآسانی دے سکتے ہیں ۔
Payment یعنی آمدن آپ کو کیسے ملے گی ؟
یہ سب سے اہم اور سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب آپ کہ Clixsense کے اکائونٹ میں ،اگر آپ نے Payza سلیکٹ کیا ہے اور آپ Premium Mumber ہیں تو آپ 6$ پر رقم cashout مطلب نکلوا سکتے ہیں،اور اگر آپ Standard Memberہیں تو آپ 8$ پر پہچنے پر رقم نکلوا سکتے ہیں۔Payza کا ATM کارڈ بھی ہے ،جو کہ پاکستان میں کسی بھی ATM مشین پر قابل استعمال ہے۔
Payza کا اکائونٹ بنانے کے لئے نیچے دیئے گئے بینر پر کلک کریں ۔
اپنے ریفرل لنک کو کیسے پروموٹ کرنا ہے؟
اپنے لنک کی تشہیر کے لئے سب سے اچھا ذریعہFacebook,Olx اور ایسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اور فری ایڈ پوسٹنگ سائٹس ہیں ۔ان سائٹس پر جا کر آپ لوگوں کو بتائیں کہ Clixsense کیا ہے ،کیسے کام کرتی ہے ،اور اُن کو بتائیں کہ آپ کو ایک اچھی اور قابل اعتماد سائٹ ملی ہے ،جس سے آپ بھی اپنے فارغ اوقات میں کما سکتے ہیں ۔بس اسی سے ملتا جلتا ایک اشتہار بنالیں اور ہفتے میں اس کی 3 سے 4 مرتبہ تشہیر کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کے توسط سے اس کام کو جوائن کریں اور آپ کی آمدن میں اضافے کا باعث بن سکیں۔
اگر آپ بھی Clixsense کو جوائن کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیئے گئے بینر پر کلک کر کے Clixsense کے ممبر بن سکتے ہیں ۔

Monday, 15 December 2014

کرسمس کی حقیقت - Reality Of Christmas


یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دینا میں انسان کسی بھی مذہب، گروہ ، فرقے، قوم یا ملک سے ہو اسے خوشی چاہیے۔ وہ خوش ہونا ،ہنسنا اور مسکرانا چاہتا ہے،وہ تہوار منانا چاہتا ہے۔ مذہب انسان کی اس فطرت سے واقف ہے لھٰذا وہ اسے تقریبات، عیدیں اور تہواروں کی اجازت دیتا ہے۔ انسانی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تو اکثر و بیشترحدود اللہ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آسمانی مذاہب نے ان تقریبات ، عیدوں اور تہواروں کو پاکیزہ رکھنے کی ہمیشہ تاکید کی ہے۔ لیکن حضرت انسان کی خواہش کی تکمیل کے آگے جہاں مقدس الہامی کتب اور صحائف نہ بچ سکے وہاں یہ بے چاری عیدیں اور تہوار کیا چیز ہیں۔
کرسمس(Christmas) دو الفاظ ChristاورMassکا مرکب ہے۔Christمسیح علیہ السلام کو کہتے ہیں اور Massاجتماع،  اکٹھا ہونا، یعنی مسیح علیہ السلام کے لیے اکٹھا ہونامسیحی اجتماع یا میلاد مسیح۔ یہ لفظ تقریبا چوتھی صدی عیسوی کے قریب قریب پایا گیا اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں ملتا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا اور منایا جاتا ہے۔ اسے یول ڈے نیٹوئی اور نوائل جیسے ناموں سے بھی منایا جاتا ہے۔(نوائے وقت،27دسمبر2005ء)
بڑا دن بھی کرسمس کا مروجہ نام ہے۔ یہ یوم ولادت مسیح علیہ السلام کے سلسلہ میں منایا جاتا ہے کیونکہ مسیحیوں کے لیے یہ ایک اہم اور مقدس دن ہے اس لیے اسے بڑا دن کہا جاتا ہے۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسائی اسے 25دسمبر ، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسیا 6جنوری کو اور آرمینیہ کلیسیا 19جنوری کو مناتی ہے۔ کرسمس کے تہوار کا 25دسمبر پر ہونے کا ذکر پہلی مرتبہ شاہِ قسطنطین کے عہد میں 325عیسوی کو ہوا۔ یہ بات صحیح طور پر معلوم نہیں کہ اولین کلیسیائیں بڑا دن مناتی تھیں یا نہیں۔
یاد رہے کہ مسیح علیہ السلام کی صحیح تاریخ پیدائش کا کسی کو علم نہیں۔ تیسری صدی میں اسکندریہ کے کلیمنٹ نے رائے دی تھی کہ اسے 20مئی کو منایا جائے لیکن 25دسمبر کو پہلے پہل روم میں اس لیے مقرر کیا گیا تا کہ اس وقت ایک غیر مسیحی تہوار جشن زحل کو Saturnalia(یہ رومیوں کا ایک بڑا تہوار تھاجس میں رنگ رلیاں منائی جاتی تھیں) جو راس الجدی کے موقع پر ہوتا تھاپس پشت ڈال کر اس کی جگہ مسیح علیہ السلام کی سالگرہ منائی جائے۔(قاموس الکتاب، صفحہ147)۔
اس کے علاوہ کینن فیرر نے بھی اپنی کتاب "لائف آف کرائسٹ" میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مسیح علیہ السلام کی تاریخ ولادت کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔ انجیل سے صرف یہ بات معلوم ہوتی ہےکہ اس رات گڈرئیے بھیڑوں کو لیے ہوئے بیت اللحم کے کھیتوں میں موجود تھے۔ لیکن انسائیکلوپیڈیا برناٹیکا میں کرسمس ڈے پر آرٹیکل لکھنے والے نے اس پر ایک نہائت عمدہ تنقید کی ہے، وہ لکھتا ہے : دسمبر کا مہینہ تو ملک یہودیہ میں سخت بارش کا مہینہ ہے۔ ان دنوں بھیڑیں اور گڈرئیے کس طرح کھلے آسمان تلے رہ سکتے ہیں۔
4صدیوں تک 25دسمبر تاریخ ولادتِ مسیح علیہ السلام نہیں سمجھی جاتی تھی۔530عیسوی میں سیتھیا کا ایک راہب ڈایونیس اکسیگز نامی جو منجم(ستاروں کا علم رکھنے والا)بھی تھا تاریخ ولادت مسیح علیہ السلام کی تحقیق اور تعین کے لیے مقرر ہوا۔ سو اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت 25دسمبر مقرر کی۔ کیونکہ مسیح علیہ السلام سے پانچ صدی قبل 25دسمبر مقدس تاریخ تھی۔ بہت سے سورج دیوتا اسی تاریخ پر یا اس سے ایک دو دن بعد پیدا ہونا تسلیم کیے جا چکے تھے۔ چنانچہ راہب آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو مقبول بنانے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخِ ولادت 25دسمبر مقرر کر دی۔ قرآن مجید کی سورۃ مریم پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مریم علیھا السلام کو دردِ زہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کی کہ کھجوروں کے تنے کو ہلائے تا کہ ان پر تازہ پکی کھجوریں گریں اور وہ اس کو کھائیں اور چشمے کا پانی پی کر طاقت حاصل کریں۔ اب فلسطین میں موسمِ گرما کے وسط یعنی جولائی ، اگست میں ہی کھجوریں ہوئی ہیں۔ اس سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہےکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت جولائی یا اگست کے کسی دن میں ہوئی تھی اور 25دسمبر کی تاریخ غلط ہے۔(مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ،صفحہ:435)۔
جرمن قبائل قدیم زمانہ سے اس موسم کو تعظیم اور تکریم کا موسم سمجھتے تھے سیکنڈ ڈے نیویا کے قدیم باشندوں کا عقیدہ تھا کہ تمام دیوتا 25دسمبر کو زمین پر اترے ہیں اور 6جنوری تک انسانوں کی تقدیر بدلنے کی تدبیر کرتے رہے ہیں۔(ذکرِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ملتا ہے کہ چوتھی صدی عیسوی کے آغاز میں روم شہر میں مشعلیں بنانے والے ایک صاحب نے ایک ایسی مشعل بنائی کہ جس میں تیل نہیں ڈالنا پڑتا تھا جسے بعد میں کینڈل یا موم بتی کا نام دیا گیا ۔ یہ تیل والی مشعلوں کے مقابلے میں گھنٹوں زیادہ چلتی ۔ یہ ایک زبردست ایجاد تھی جس کے ذریعے وہ دنوں میں امیر ہو گیا ، لھٰذا اب یہ شخص موم بتی کی وسیع فروخت کا خواہاں ہوا اس نوجوان کے حلقہ احباب میں روم شہر کا ایک پادری بھی تھا۔ ایک دن نوجوان نے اپنے پادری دوست کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو پادری نے اس کو سمجھایا کہ دنیا میں جو چیز مذہب کے ساتھ منسوب ہو جائے اسے دوام مل جاتا ہے۔ایک دن پادری اس نوجوان کی دکان پر آیا اور نوجوان نے پادری کے کان میں سرگوشی کی تو پادری کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ اتفاق سے وہ اتوار کا دن اور 25دسمبر تھا۔ اس روز پادری نے سروس یعنی عبادت کے بعد ایک عجیب اعلان کیا کہ آپ تمام حضرات سورج ڈوبنے کے بعد دوبارہ چرچ میں آئیں، آج ایک ایسے خصوصی طریقے سے دعا مانگوں گا کہ دعا مانگنے سے پہلے ہی قبول ہو جائے گی۔ جنانچہ لوگ شام کو چرچ میں جمع ہو گئے اور جب خوب اندھیرا پھیل گیا تو پادری نے تمام حاضرین کے سامنے ایک ایک موم بتی جلا دی اور لوگوں سے آنکھیں بند کر کے دعا کرنے کی درخواست کی ۔ یہ دیا گھنٹوں چلتی رہی اور ساتھ موم بتیاں بھی۔ دعا کے بعد جب لوگوں کی واپسی شروع ہوئی تو ان کے ہونٹوں پر اس نئے طریقے کی دعا کی مقبولیت کا چرچا تھا۔یہ 336عیسوی کا 25دسمبر تھا۔(سازشین بے نقاب)۔
مذکورہ بالا حوالہ سے یہ بات تو روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ 25دسمبر مسیح علیہ السلام کی یوم ولادت نہیں اور قاموس الکتاب کے حوالہ سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ "جشنِ زحل"(رومیوں کا تہوار)جو عیاشیوں کی نظر ہو چکا تھا کو ایک مقدس تہوار سے بدل دیا گیا تا کہ لوگوں کا رجحان مذہب کی طرف ہو جائے مگر کس کو معلوم تھا کہ یہ مقدس تہوار جشنِ زحل سے بھی خطرناک صورت حال اختیار کر جائے گا۔بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس تہوار کا آغاز روم میں 336عیسوی میں ہوا۔ ان دنوں گرجا گھروں اور بادشاہوں میں بڑا اتفاق ہوتا تھا۔بادشاہوں کو غیر اخلاقی ، غیر شرعی احکام کی تصدیق کے لیے چرچ کی مدد درکار ہوتی تھی، اور پادری بھی بادشاہ کے ایما پر ایسے احکامات جاری کر دیا کرتے تھے۔ بہر حال کرسمس کے تہوار کو پادریوں نے دربار تک پہنچا ہی دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شہرت اتنی بڑھی کہ دو تین برسوں ہی میں یہ تہوار سرکاری سرپرستی میں چلا گیا۔ روم کے بعد جرمنی دوسرا علاقہ تھا جس میں کرسمس منائی جانے لگی۔ وہاں بھی اس تقریب کو سرکاری تقریب کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اس زمانے جرمنی کسی خاص ملک یا سلطنت کا نام نہیں تھا۔ یہ رومی سلطنت کا ایک مفتوحہ علاقہ تھاجس میں چھوٹے چھوٹے سرداروں کی حکومتیں تھیں۔ یہ سردار ابتدا میں کرسمس منانے روم جاتے تھے۔ واپس آکر جب اپنے درباریوں کو واقعات سناتے تو وہ حیرت کا اظہار کرتے۔ بعد ازاں جرمن نے مقامی سطح پر کرسمس کا اہتمام کیا، اس دن کے بعد تمام جرمن قبائل اپنے اپنے قبیلے میں کرسمس منانے لگے۔ یوم روم کے بعد اس خطے میں بھی کرسمس منائی جانے لگی جسے آج دنیا جرمنی کا نام دیتی ہے۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تاریخ پیدائش نہ تو انجیل سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی اور مستند ذریعے سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تین صدیوں تک میلادِ مسیح علیہ السلام کو منانا مشرکانہ اور بت پرستانہ فعل سمجھا جاتا تھا۔ بعد ازاں مختلف چرچوں کی طرف سے اس خود ساختہ رسم کی روک تھام کے لیے متعدد احکامات بھی جاری کئے گئے۔(تفصیل کے لیے دیکھئے: Collier's انسائیکلوپیڈیا)۔
کرسمس کے دوران "کرسمس ٹری"کا تصور بھی جرمنوں ہی کا پیدا کردہ ہے۔ یہ لوگ کرسمس کے دن حضرت مریم علیھا السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کا کردار مختلف اداکاروں کے ذریعے ایک ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے اور تمام واقعہ دہراتے جو مریم علیھا السلام کے ساتھ مسیح علیہ السلام کی ولادت کے ضمن میں پیش آیا۔ اور اس واقعے کے دوران درخت کو مریم علیھا السلام کا ساتھی بنا کر پیش کیا جاتا، وہ اپنی ساری اداسی اور ساری تنہائی اس ایک درخت کے پاس بیٹھ کر گزار دیتیں۔ چونکہ یہ درخت بھی سٹیج پر سجایا جاتا تھا اور ڈرامے کے اختتام پر لوگ اس درخت کی ٹہنیاں تبرک کے طور پر اکھیڑ کا ساتھ لے جاتے اور اپنے گھروں میں ایسی جگہ لگا دیتے جہاں ان کی نظریں ان پر پڑتی رہیں ۔ یہ رسم آہستہ آہستہ کرسمس ٹری کی شکل اختیار کر گئی اور لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں کرسمس ٹری بنانے اور سجانے شروع کر دئیے۔ اس ارتقائی عمل کے دوران کسی ستم ظریف نے اس پر بچوں کے لیے تحائف بھی لٹکا دئیے جس پر یہ تحائف بھی کرسمس ٹری کا حصہ بن گئے۔کرسمس ٹری کی بدعت انیسویں صدی تک جرمنی تک محدود رہی۔ 1847عیسوی کو برطانوی ملکہ وکٹوریہ کا خاوند جرمنی گیااور اسے کرسمس کا تہوار جرمنی میں منانا پڑا تو اس نے پہلی مرتبہ لوگوں کو کرسمس ٹری بناتےاور سجاتے  دیکھاتو اسے یہ حرکت بہت بھلی لگی ،لھٰذا وہ واپسی پر ایک ٹری ساتھ لے آیا۔ 1848عیسوی میں پہلی مرتبہ لندن میں کرسمس ٹری بنوایا گیا، یہ ایک دیو ہیکل کرسمس ٹری تھا جو شاہی محل کے باہر آویزاں کیا گیا تھا۔ 25دسمبر 1848ء کو لاکھوں لوگ یہ درخت دیکھنے لندن آئے اور اسے دیکھ کر گھنٹوں تالیاں بجاتے رہے۔ اس دن سے لے کر آج تک تقریبا تمام ممالک میں کرسمس ٹری ہر مسیحی گھر میں بنایا جاتا ہے۔(ایوری مینز انسائیکلوپیڈیا، نیو ایڈیشن1958ء
کرسمس کا آغاز ہوا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں مذہبی رجحان پیدا کیا جائے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی بدعت تھی جس کی واحد فضول خرچی موم بتیاں تھیں لیکن پھر کرسمس ٹری آیا، پھر موسیقی، پھر ڈانس آخر میں شراب بھی اس میں شامل ہو گئی۔ شراب کے داخل ہونے کی دیر تھی کہ یہ تہوار عیاشی کی شکل اختیار کر گیا۔ صرف برطانیہ کا یہ حال ہے کہ ہر سال کرسمس پر وہاں کروڑوں پاؤنڈ کی شراب پی جاتی ہے۔ 25دسمبر 2005ء کو آبرو ریزی اور زیادتی کے 19ہزار کیس درج ہوئے ۔ سروے کے مطابق برطانیہ کے ہر 7میں سے ایک نوجوان نے کرسمس پر شراب نوشی کے بعد بدکاری کا ارتکاب کیا۔ امریکہ کی حالت اس سے بھی گئی گزری ہے کہ امریکہ میں ٹریفک کے قوانین کی اتنی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں کہ پورا سال نہیں ہوتیں۔ 25دسمبر کو ہر شہری کے منہ سے شراب کی بدبو آتی ہے۔ شراب کے اخراجات 14ارب ڈالر تک پہنچ جاتے ہیں۔ صرف اٹلانٹک سٹی کے جوا خانوں میں اس روز 10ارب روپوں کا جوا ہوتا ہے۔ لڑائی اور مار کٹائی کے واقعات کی 6لاکھ اطلاعات آتی ہیں۔ 25دسمبر 2005ء کثرت شراب نوشی کی وجہ سے حادثوں کے دوران کرسمس کے روز اڑھائی ہزار امریکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، پانچ لاکھ خواتین اپنے بوائے فرینڈز اور خاوندوں سے پٹیں۔ لھٰذا اب تو یورپ میں ایسے قوانین بن رہے ہیں کہ جن کے ذریعے شہریوں کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ وہ کرسمس کی عبادت کے لیے اپنے قریب ترین چرچ میں جائیں، شراب نوشی بعد اپنی گلی سے باہر نہ نکلیں۔ خواتین بھی اس خراب حالت میں اپنے بوائے فرینڈز اور خاوندوں سے دور رہیں۔ (مذکورہ بالا اعدادوشمار 2004ء اور 2005ء کے ہیں)۔
ہم مسلمان بھی اپنی عیدوں پرقدرت کے اس قانون کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں اور طرح طرح کی بدعتوں کا شکار ہو چکے ہیں، البتہ عیسائی دنیا مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں آگے ہے۔اب تو عیسائیوں کے اندر بھی ایسے گروہ پیدا ہو چکے ہیں جو کرسمس کو پسند نہیں کرتے، یہ لوگ اس تہوار پر مختلف اعتراضات کرتے ہیں، مثلا مسیح علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کرسمس نہیں منائی، اس کے بعد بھی ساڑھے تین سو سال تک اس تہوار کا نام و نشان نہیں تھاجس سے کرسمس کی حقیقت مشکوک ہو جاتی ہے۔ ان لوگون کا کہنا ہے: ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کرسمس کو سپانسر کر کے اسے مذہبی تہوار کے بجائے دکانداری بنا دیا ہے۔ عیسائی مذہب اور اس کے تہواروں میں درخت کی کوئی گنجائش نہیں۔ انجیل میں واضح الفاظ میں یہ حکم موجود ہے: درخت کاٹ کر اور اسے مصنوعی طریقے پر صحن میں نا گاڑا جائے۔  بائبل میں تقریبا 38مقامات سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ عیسائیت میں شراب نوشی حرام ہے جبکہ اس روز شراب نوشی اہتمام کے ساتھ کی جاتی ہے۔(سازشیں بے نقاب)۔

خلاصہ:

ہر نبی اور رسول نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا کہ تم لوگ اپنی خوشیوں کو احتیاط کے دامن میں سمیٹے رکھو، اسے عیاشی اور ہلے گلے کی نظر نہ کرو۔ مگر انسان نے خوشیاں منانے کے سلسلے میں ہمیشہ قدرت کے اس قانون کی خلاف ورزی کی ۔ مذکورہ بالا تفصیلات سے کرسمس کی حقیقت سمجھنے  میں آسانی ہو گئی کہ اس کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اسے خواہ مخواہ اس کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے۔ جناب مسیح علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا حتمی علم نہ ہونا اور ابتدائے مسیحیت میں اس دن کے منانے کا عدم ثبوت اسے تقویت پہنچاتا ہے۔ کیونکہ اگر کسی بھی مذہب کے مخصوص تہواروں میں ان کے ماننے والے مختلف نظر آئیں تو اس کا لازمی مطلب ہے کہ اس مذہب کے بانی اور اس کے اولین پیرو میں یہ ناپید تھا۔
قرآن مجید ایسی نے ایسی باتوں کے حوالے سے ہی فرمایا: (مالھم بہ من علم ولا لآبآئھم کبرت کلمۃ تخرج من أفواھھم إن یقولون إلا کذبا) "نہ انہیں اس(بات )کا کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو، بڑی(ہی خطرناک)بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے، وہ تو سرا سر جھوٹ ہی بکتے ہیں۔"(الکھف 5:18)۔
"اور یہود کہتے ہیں عزیر علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں مسیح علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے علماء، مشائخ اور مسیح ابن مریم علیھما السلام کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں او کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔ "(سورۃ توبہ: 30-31)۔

اور آج کل کے دور میں ہمارے کئی ماڈرن قسم کے مسلمان بھی ان عیسائیوں کو "ہیپی کرسمس"(نعوذ باللہ۔ اللہ نے 25دسمبر کو بیٹا جنا) کہتے نظر آتے ہیں  نہ ہی ان کو اس بات کا مطلب پتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے دین (اسلام) کو جانتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے اس طرح کی بات کہہ دیتے ہیں ۔ 

Saturday, 13 December 2014

قلات کا قلعہ میری

ویسے تو بلوچستان میں ’’قلعہ میری‘‘ کے نام کے دو قلعے موجود ہیں۔ ایک ’’قلعہ میری‘‘ کوئٹہ چھاؤنی میں ہے۔ یہ مٹی کا بنا ہوا ہے دوسرا قلات میں ہے۔ ’’ قلعہ میری‘‘کوئٹہ کو دور سے دیکھیں تو ایک پراسرار افق کے طور پر دکھائی دیتا ہے اس قلعے پر انگریزوں نے 1875ء کے بعد قبضہ کیا تھا اس وقت یہ قلعہ خان قلات کی ملکیت تھا۔ انگریزوں نے اسے 99 سال کے لیے خان قلات سے مانگا تھا اور اسے Arsenal کے طور پر استعمال کیا تھا۔

دوسرا’’قلعہ میری‘‘ قلات ہے جو آج میری پوسٹ کا موضوع ہے ۔کوئٹہ کی جانب سے سفر کیا جائے تو جنوبی مغرب کے درمیان ایک سڑک’’ہائی وے‘‘ کے نام سے موسوم ہے لہٰذا سفر میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی ایک سیاح آسانی سے قلات تک پہنچ سکتا ہے۔ قلعہ میری یوں تو فوجی مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا اسے مٹی کے ایک ٹیلے پر تعمیر کیا گیا کہ اس کی بھول بھیلوں میں اسلحہ رکھا جاتا تھا۔ انگریزوں کو اس کی تعمیر میں پراسراریت دکھائی دی تو انہوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ جس کی بناء پر بلوچوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔ لوگ قلعہ میری کوئٹہ کا نام لے کر اب بھی اس کا احترام کرتے ہیں جب انگریز کوئٹہ پر قابض ہوئے تو خان قلات جو اس وقت ایک وسیع ریاست کا مالک تھا۔ اس نے قلات میں ایک انوکھے ڈیزائن پر ’’قلعہ میری‘‘ تعمیر کرایا۔ آج بھی یہ قلعہ علیحدگی اور حرمت کے تصور کے پیش نظر استحکام اور اکملیت کی روشنی رکھتا ہے۔

قلعہ میری کی آب و تاب اس کے ن منفرد ڈیزائن میں ہے۔ اس کی تعمیر کے بارے میں کوئی مستند تاریخی روایت نہیں ملتی۔ اسے جس کسی نے بھی تعمیر کروایا اس نے خان قلات سے ہدایات حاصل کیں اور بلوچستان میں نئے مظہر کی شکل میں اسے دیکھا اور اسے جدید رجحان کی مثال بنایا۔ شاید خان قلات کے ذہن میں جدیدیت کا کوئی نمونہ ذہن میں موجود ہو اس لیے انہوں نے انسانی غیظ و غضب کی بجائے ایک نئے انداز سے قلات پر حکمرانی کی ابتداء کی تھی۔ والیائی ریاست تحفظ کے احساس کے تحت اپنی ہبیت کے لیے گرانڈیل قلعے تعمیر کراتے ہیں مگر خان قلات نے ایک وسیع قطعہ اراضی پر سبز گھاس لگا کر نیلے سمندر کا خاکہ بنایا۔ اس کے ساحل پر سمندری جہاز کو لنگر انداز دکھا کر نہ جانے کون سے تصور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔

قلعہ میری کی تعمیر سمندری جہاز کی شکل میں کی گئی ہے۔ قلعہ کے سامنے ایک وسیع سرسبز میدان ہے اس کے دامن میں چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اور جنوب کی طرف وسیع جنگل ہے۔ اس جنگل کے دامن میں قلات بازار کا تجارتی مرکز ہے قلعہ کے جنوبی سطح پر ملحق ایک چھوٹی سی مسجد ہے اور قرآن خوانی کے لیے لمبے لمبے لکڑی کے تختے ہیں۔ انگریزی تسلط کے عہد میں آخری خان قلات کے چچا اس کا والی تھا اس زمانے میں انگریزوں کی طرف سے پولیٹیکل ایجنٹ اور دیوان مقرر کیے جاتے تھے۔ ان دیوان حضرات میں ایک صاحب اقتدار نے ایسی اندھیر گردی مچائی کہ آج تک اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ 1857ء سے 1957ء تک بھی یہ قلعہ سازشوں کا مرکزرہا۔


اگر کبھی موقع ملے تو اس قلعہ کو آپ ضرور وزٹ کریں۔

Friday, 12 December 2014

جھیل سیف الملوک(کاغان، ناران)

جھیل سیف الملوک وادی کاغان کے اختتام اور وادی ناران سے انتہائی قریب ہے، یہ پاکستان کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے- اس جھیل کا شمار پاکستان کی بلند ترین جھیلوں میں ہوتا ہے اور یہ 3224 میٹر یا 10578 فٹ کی بلندی پر واقع ہے-اس کی لمبائی تقریبا 1420 فٹ اور چوڑائی 450فٹ کے قریب ہے۔ ناران کے قصبے سے بذریعہ جیپ یا پیدل اس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت جھیل ہے۔ ملکہ پربت، اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔

سیف الملوک جھیل وادی ناران کی بیحد حسین جھیل،برف پوش پہاڑوں کے درمیاں ایک زمردیں پیالے کی طرح ہے -یہ جھیل قدرتی حسن و جمال کا شاہکار ہے ۔اسکے متعلق ایک مشہور رومانی داستان شہزادہ سیف الملوک اورکوہ قاف کی پریوں کی شہزادی بدی جمال کے متعلق ہے ۔ جس میں مجھے حقیقت کم اور افسانہ زیادہ نظر آتا ہے ۔ جو کہ کسی نے بڑی خوبصورتی سے گڑھا ہے۔ اور اب یہ افسانہ وہاں کے مقامی لوگوں کی زبان پر عام ہے۔

اس کہانی کے مطابق مصر کا شہزاد ہ سیف الملوک ایک حسین پری بدیع الجمال کو خواب میں دیکھتا ہے اور اس پر اپنا دل ہار جاتا ہے ۔اور اس کی تلاش میں نکل پڑتا ہے اسے معلوم ہوتا ہےکہ اگر وہ بارہ برس تک اس جھیل کے کنارے پرعبادت کرتارہے تو پری کو پالے گا ۔بارہ برس کی عبادت کے بعد چاند کی چودھویں رات کو پری جھیل میں اتری تو شہزادے نے اس سے اظہار محبت کیا اور شادی کا وعد ہ کرنے کو کہا ۔کافی مشکلات کے بعد شہزادہ پری کو لے کر اپنے وطن چلا گیا۔مقامی لوک داستانوں میں یہ کہانی گا گاکر سنائی جاتی ہے - اور لوگوں سے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ (یہ داستان مختلف طریقوں اور مختلف الفاظ سے سنائی جاتی ہے۔جس میں بہت سے بیہودگی کےپہلو بھی ہیں۔جن کا تذکرہ کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔)

ملکہ برطانیہ الزبتھ اور انکے شوہر جب 1959 میں پاکستان کے دورے پر آئے تو اسوقت کے صدر ایوب خان بطور خاص انکو ہیلی کوپٹر میں جھیل سیف الملوک لے گئے -


آپ میں سے بہت سے لوگ یہ مقام دیکھ چکے ہوں گے ۔ جنہوں نے اس مقام کو وزٹ نہیں کیا وہ بھی ضرور اس کو وزٹ کریں ۔ اور اللہ کی قدرت کے نظارے دیکھیں ۔ اور بجائے ان پریوں کی دا ستانوں میں پڑنے کے اللہ کی قدرت کی وسعتوں میں کھو جائیے اور اس اللہ کریم کا شکر ادا کریں۔کہ اس نے آپ کو اپنی قدرتوں کے نظارے دیکھنے کی توفیق بخشی۔

دنیا کی قدیم ترین تہذیب موہن جودڑو

جدید تحقیقات کی روشنی میں اب تک جو معلومات فراہم ہوئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو ہزار تین سو سال قبل مسیح میں وادیٔ سندھ ایک عظیم تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھی۔ اس وادی میں ایک نہایت مضبوط حکومت قائم تھی جس کی بنیادیں صدیوں سے مستحکم چلی آ رہی تھیں ان دنوں موہن جودڑو کو سندھ کے دارالخلافہ کی حیثیت حاصل تھی۔

موہن جودڑو کا مطلب ہے ’’مرے ہوئے لوگوں کا ٹیلہ‘‘ کسی بلند مقام پر کھڑے ہو کر اگر ساری بستی کا جائزہ لیا جائے تو موہن جودڑو کی یہ بستی چھ سات محلوں پر مشتمل معلوم ہوتی ہے۔ ہر محلہ شمالاً جنوباً 1200 اور شرقاً غرباً 800 فٹ علاقے میں پھیلا ہوا ہے ان محلوں کو وسیع شاہراہ ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں یہ شہر شکل و صورت میں جزائربرطانیہ کے قدیم شہروں سے ملتا جلتا ہے جس طرح آئرلینڈ کا سمندر، انگلینڈ سے آئرلینڈ کو جدا کرتا ہے بالکل اسی طرح دریائے سندھ کی قدیم طغیانی نے شاید ’’اسٹوپہ علاقے‘‘ کو ایک دوسرے خطے سے الگ کر دیا تھا اور اب یہ کھنڈرات دو بڑے حصوں میں منقسم ہیں ایک بالائی شہر اور ایک نشیبی شہر، بالائی شہر ایک بیضوی ٹیلے پر قدیم آبادی کے مغربی سرے پر واقع ہے اس شہر میں اسٹوپہ، ایک حوض، درسگاہ اور بڑے ستونوں والا ہال خاص طور پر قابل ذکر ہیں جبکہ نشیبی شہر میں رہائشی مکانات، دکانیں، کھلی سڑکیں اور گلیاں ہیں۔ ان کھنڈرات میں موجودہ طرز تعمیر کی جھلک بھی بخوبی نظر آتی ہے ان آثار اور کھنڈرات کو دیکھ کر ایک انگریز نے کہا تھا کہ ’’میں ان کھنڈرات میں کھڑے ہو کر یوں محسوس کر رہا ہوں جیسے لنکا شائر‘‘ کے کھنڈرات میں کھڑا ہوں۔

1922ء میں سرجان مارشل نے موہن جودڑو کے ٹیلے کی باقاعدہ کھدائی شروع کروائی ان دنوں آپ برصغیر میں محکمہ آثار قدیمہ کے ناظم اعلیٰ تھے۔ اس کھدائی سے تاریخ کے ہزاروں سربستہ رازوں کا انکشاف ہوا۔ ان رازوں کے افشاء ہونے سے قبل ہندوؤں کی مقدس کتابوں، قدیم تاریخوں، غیر ملکی سیاحوں اور مشہور چینی سیاح ہیون سانگ کے تذکروں کی روشنی سے صرف یہی معلوم ہوتا رہا کہ آریوں کی آمد سے قبل برصغیر میں وحشی اور غیر متمدن لوگ آباد تھے ان کا کوئی مذہب نہیں تھا کوئی تہذیب نہیں تھی۔ یہ لوگ سیاہ فام تھے ان کی ناک چپٹی تھی جو چہرے پر نہ ہونے کے برابر تھی ان لوگوں کو آریوں نے حملہ کرکے مغلوب کر لیا اور غلام بنا لیا ۔


مگر موہن جودڑو کی کھدائی کے بعد یہ تاریخ غلط ثابت ہوئی۔ آریوں کے حملے کے وقت برصغیر کا امیر طبقہ دولت کی وجہ سے عیش و عشرت میں مگن تھا اور دولت سمیٹنے کا جذبہ شدت اختیار کر جانے کی وجہ سے ان لوگوں میں بہادری اور قربانی کا جوہر بالکل ختم ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آریوں سے مغلوب ہوگئے ورنہ 500 سال قبل وادی سندھ میں ایسے ذہین اور باشعور لوگ آباد تھے جو اس دور کی کسی بھی متمدن انسانی تہذیب سے پیچھے نہ تھے۔ موہن جودڑو کے ہزاروں سال پرانے تعمیر کردہ کنوئیں، ملبہ اور گارا نکالنے کے بعد صاف اور ٹھنڈا پانی دے رہے ہیں اس شہر کے لوگ صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے گندے پانی کے نکاس کا جو طریقہ موہن جودڑو میں پایا گیا ہے اس دور میں روئے زمین پر کسی بھی تہذیب میں اس کا سلیقہ نہیں تھا۔ گلیوں اور سڑکوں کے دونوں طرف گندے پانی کے نکاس کے لیے نالیاں تعمیر کی جاتی تھیں جنہیں پتھر کی سلوں سے ڈھانپ دیا جاتا تھا اور صفائی کے وقت انہیں اٹھالیا جاتا تھا موہن جودڑو میں بعض ایسی عمارتیں ملی ہیں جن پر حمام ہونے کا گمان ہوتا ہے۔

Thursday, 11 December 2014

پاکستان کا تاریخی ورثہ کافر کوٹ کے کھنڈرات

ماضی میں وسط ایشیا سے تجارتی قافلے اور جنگ جو حملہ آور درہ گومل کے راستے بر صغیر میں داخل ہوتے رہے ۔ یہ لوگ ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب دریائے سندھ کے کنارے پڑاؤ ڈالتے تھے ۔ دوسری طرف دریائے سندھ کے ذریعے تجارتی مال کشتیوں کے ذریعے مختلف اطراف روانہ کیا جاتا تھا ۔ دریائے سندھ عبور کرنے کے بعد تجارتی قافلوں اور حملہ آوروں کی اگلی منزل ملتان ہوا کرتی تھی ۔ ملتان کے بعد پاک پتن ، دیپال پور ، لاہور اور دہلی کا رخ کیا جاتا تھا عموماً ملتان کے قریب ہی ان حملہ آوروں کو روک دیا جاتا تھا ۔

دریائے سندھ کا بیشتر حصہ پہاڑوں کے دامن میں ہے ۔ دریائے سندھ کے کنارے واقع پہاڑیوں کی چوٹیوں پر قدیم قلعوں ، عبادت گاہوں اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار ملتے ہیں ۔ ایسے ہی آثار ڈیرہ اسماعیل خاں شہر سے 39میل کی طرف خیسور پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہیں ۔ یہ آثار کافر کوٹ کے نام سے مشہور ہیں ۔ کسی زمانے میں دریائے سندھ کافر کوٹ کے پہاڑوں کے نیچے بہتا تھا جس پہاڑ پر یہ کھنڈرات ہیں اس کے مشرق کی جانب آ بی گذر گاہ ہے ۔ ماضی میں وسط ایشیا ، افغانستان برصغیر کو ملانے والی شاہراہ اس علاقے سے گزرتی تھی ۔ کافر کوٹ کے کھنڈرات کو نوکیلے تراشے ہوئے پتھروں اور خاردار جھاڑیوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔

پہاڑوں کی چوٹی پر ہونے کی وجہ سے یہ آثار قدیمہ ابھی تک محفوظ ہیں ۔ مسلمان اس قلعے کوکافر کوٹ کے نام سے پکارتے ہیں ۔ہندو اسے "راجہ بل" کا قلعہ کہتے تھے ۔ قلعے میں موجود مندروں کی تعدادسات کے لگ بھگ ہے ۔ یہ مندرماضی میں بہت خوبصورت اور شاندار تھے ان کے آثار ان کی عظمت رفتہ کی شہادت دیتے ہیں ۔ قدیم دور کے یہ محل اور مندر راجہ بل نے تراشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کروائے تھے ان کی طرز تعمیر قلعہ نندنا ، ضلع جہلم ، کٹاس کے مندر ، قلعہ ملوٹ ، ضلع چکوال ، ماڑی شہر ضلع میانوالی سے ملتی جلتی ہے ۔

یہ مندر پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہیں ۔ قلعہ نندنا ایک دشوار گذار پہاڑی علاقے میں ہے ۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنے دسویں حملے میں راجہ نند پال کو شکست دی تھی قیاس ہے کہ کافر کوٹ کا قلعہ اور مندر بھی سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں برباد ہوئے ۔ کافر کوٹ کے قلعے کے اندر ایک تالاب بھی تھا جس میں بارش کاپانی جمع ہو جاتا تھا۔ محلات اور فصیل کے آثار اب بھی موجود ہیں ۔ ان کھنڈرات میں جیل خانے کے آثار بھی پائے جاتے ہیں ۔ کافر کوٹ کے کھنڈرات کے تین اطراف بلند و بالا پہاڑ اور گہری کھائیاں ہیں ۔ ماضی میں قلعے یا حکمرانوں کے محل پہاروں پر تعمیر کئے جاتے تھے تا کہ وہ دشمنوں اور حملہ آوروں سے محفوظ رہ سکیں ۔

کافرکوٹ کے مندروں کے اطراف نہایت خوبصورت ڈیزائن بنائے گئے ہیں جو کاریگروں کی مہارت کا ثبوت ہیں پہاڑی پر چڑھنے کیلئے پرانے زمانے کی ایک سڑک کے آثار پائے جاتے ہیں ۔ یہ قلعہ دفاعی لحاظ سے محفوظ مقام پر بنایا گیا تھا ۔ کافر کوٹ کے شہر کے اردگرد پتھر کی بنی ہوئی مضبوط فصیل تھی جس میں حفاظتی مورچے بنے ہوئے تھے مندروں کے اندر ہندو پوجا پاٹ کرتے اور دیگرمذہبی رسومات ادا کرتے تھے ۔

کہا جاتا ہے کہ جس علاقے میں کافر کوٹ کے کھنڈرات پائے جاتے ہیں وہاں صدیوں قبل ہندو راجہ بل کی حکومت تھی جس کا پایہ تخت بلوٹ تھا ۔اسے بل کوٹ یا بلوٹ کہا جاتا ہے ۔ بل کا چھوٹا بھائی ٹل اوٹ نامی شہر کا بانی تھا تیسرا بھائی اکلوٹ تھا جو اکرہ نامی شہر کابانی تھا ۔ اکرہ سر سبز و شاداب اور خوشحال شہر تھا جو سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں تباہ ہوا ۔ کافر کوٹ کے پراسرار کھنڈرات اپنی تاریخ بیان کرنے کو بے تاب ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کافر کوٹ کے کھنڈرات پر خصوصی توجہ دے ان تباہ شدہ قلعوں کے اسرار سے پردہ اٹھائے اور ان پر تحقیق سے آشنا کیا جائے ۔ ہمارے ملک میں آثار قدیمہ سے جو بے اعتنائی برتی جا رہی ہے اس کی مثال کافر کوٹ کے کھنڈرات ہی نہیں بلکہ پو ٹھوہار کے علاقے میں واقع قلعہ دان گلی ، قلعہ پھروالا ، قلعہ روات کے علاوہ کوہستان نمک کے علاقے میں قلعہ کسک ملوٹ ، راج کٹاس ، شیو گنگا اور ماڑی میانوالی کے مندروں کی بھی یہی صورتحال ہے اگر حکومت خصوصاً محکمہ آثار قدیمہ نے ان آثار پر فوری توجہ نہ دی تو ہم اپنے اس عظیم سرمائے سے محروم ہو جائیں گے ۔(بشکریہ دنیا نیوز بحوالہ پاکستان کا تاریخی ورثہ)


پاکستان کا صحرائے چولستان

ہمارا وطنِ عزیز پاکستان ہر قسم کی دولت اور خوبصورتی سے مالامال ہے اللہ پاک کے فضل سے۔ یہاں اب تک جو بھی آیا ہے وہ قدرتی نظاروں سے ضرور لطف اندوز ہوا ہے۔ بہترین آب و ہوا، خوبصورت جنگلی حیات، نایاب درخت، خوبصورت علاقے، پودے، پہاڑ، اور چھوٹے چھوٹے دریا، غاریں، جھیلیں، زبردست میدان اور حیرت انگیز صحرا موجود ہیں۔ جیسا کہ یہ سب کو پتا ہے کہ پاکستان کے پاس کچھ مشہور اور بڑے صحرا ہیں، جس میں تھر اور تھل آتے ہیں۔ لیکن اِن دونوں کے علاوہ پاکستان کے پاس ایک مشہور اور سب سے بڑا صحرا چولستان ہے۔ یہ صحرا پنجاب کے تین اضلاع پر مشتمل ہے، یہ تین اضلاع بہاولپور، رحیم یار خان اور بہاولنگر ہے۔ صحرائے چولستان ۶۵ لاکھ ایکڑ پر مشتمل ہے۔ یہ صحرا پاکستان کی خاص پہچان ہے۔ یہ عظیم اور پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ۴۸۰ کلو میٹر لمبا، اور ۲۳ سے ۱۹۲ کلو میٹر چوڑا ہے، جس کی وجہ سے اِسے وہاں کے مقامی لوگ روہی کہتے ہیں۔ چولستان ایک ایسا صحرا ہے کہ جس میں ۵۰۰۰ قبل از مسیح کے آثار قدیمہ بھی پائے جاتے ہیں۔

صحرائے چولستان جو مقامی طور پر روہی کے نام سے بھی مشہور ہے، بہاولپورشہر، پنجاب، پاکستان سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک صحرا ہے۔ چولستان پنجاب کا اہم صحرا ہے ۔ یہ جنوب مشرق میں راجستھان انڈیا سے جاملتا ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ خانہ بدوش ہیں جو صحرائے چولستان کے ٹوبھوں کے گرد اپنا مسکن بناتے ہیں ۔ ٹوبھا پنجابی زبان میں پانی کے تالاب کو کہتے ہیں ۔ برسات کے دنوں میں یہ ٹوبھے پانی سے بھر جاتے ہیں۔ صحرائے چولستان کے باسی چولستانی لہجے کی پنجابی بولتے ہیں جو راجستھانی بولیوں سے بھی ملتی جلتی ہے ۔

چولستان میں بارش بہت ہی کم ہوتی ہے۔ یہاں انسانوں، یہاں تک کہ تمام تر جانوروں کی زندگی پانی اور سبزے کے گرد ہی گھومتی ہے، جو کہ اَس صحرا میں بارش کے بعد میسّر آتی ہے۔ چولستان میں رہنے والے اپنے رب کے آسرے ہی جیتے ہیں۔ کیونکہ وہ خدا سے ہر وقت یہی دعا اور اِلتجاء کرتے ہیں کہ اُن کا رب کب اُن پر رحمت کی بارش برسائے گا؟ چولستان میں بارش اگر ہو جائے تو صحرا نِکھرا نِکھرا نظر آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہو۔ ساون کے مہینے کے بعد چولستان ایک خوبصورت بہار اپنے منظر میں دِکھاتا ہے۔ چولستان کے رہائشی وہاں کے موسم کے ساتھ بہت حد تک منسلک نظر آتے ہیں۔ وہ ہر موسم کی تیاری کر کے بیٹھے ہوتے ہیں۔ بارش ہونے سے پہلے ہی وہ ایک بہت بڑا گھڑا کھود کر اُس کے لئے مختلف راستے بناتے ہیں تاکہ جب بارش ہو تو بارش کا سارا پانی اِن راستوں کے ذریعے اُس گھڑی میں جمع ہو جائے۔ کیونکہ یہی وقت اُن کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کا ہوتا ہے۔

گرمیوں میں اکثر یہاں کا درجہ حرارت ۵۰ سنٹی گریڈ سے بھی اوپر چلا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے گھڑوں میں جمع پانی گرمی کی شدّت سے بخارات بن کر اُڑنا شروع کر دیتا ہے۔ پانی کا بخارات بن کر اُڑنا چولستان کے لوگوں کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنا دیتا ہے۔ اِس کی کمی کے ساتھ ساتھ چولستان کے رہائشیوں کی پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ چولستان میں ہر قبیلے کا الگ الگ گھڑا ہوتا ہے۔ ہر قبیلے کے کا ایک سربراہ ہوتا ہے۔ پانی کا یہ گھڑا اُس کی ملکیت میں آتا ہے مطلب کہ یہ اُس کے نام الاٹ ہوتا ہے۔ کچھ ایسی جگہ بھی موجود ہیں اِس صحرا میں جہاں پر جانور اور انسان دونوں ایک ہی گھڑے سے پانی پیتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسی جگہ بھی بنائی گئی ہیں کہ جس میں انسانوں کے لئے الگ اور جانوروں کے لئے الگ پانی کا بندوبست کیا گیا ہو۔ چولستان کے بارے میں میں نے اکثر سنا ہے کہ دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے گی لیکن یہاں کے لوگوں کی سوچ اور ثقافت شاید کبھی نہ بدلے گی۔ یہاں لوگ اب بھی ہزاروں سال پہلے والی دنیا میں رہتے ہیں۔


چولستان کے باسیوں کی تہذیب و تمدن اور رسموں رواج اب بھی ہزاروں سال گزرنے کے باوجود بھی تبدیل نہیں ہوسکی۔ پوری دنیا یہ جشن منانے میں مصروف ہے کہ وہ اِکیسویں صدی کے چودہ سال گزار چکی ہے لیکن چولستان کے باسی اب بھی سینکڑوں سال پرانے دور میں ہی جی رہے ہیں۔ پاکستان میں اب ایسے گھروں کی تعمیرات شروع کی گئی ہے جسے دیکھ کر عقل دھنگ رہ جاتی ہے اور اگر چولستان میں لوگوں کی رہائش پر غور کیا جائے تو وہ پختہ کوٹھوں کی جگہ گھاس پھونس کی جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ چولستان کے باسیوں سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کے رہن سہن میں کتنا آرام ہے تو وہ اِس سوال کا جواب دینے سے بے بس نظر آتے ہیں۔ کیونکہ جواب ہمیں خود نظر آ رہا ہوتا ہے کہ یہ جھونپڑیاں اپنے مکینوں کو نہ بارش جیسے موسم میں آندھی سے بچا سکتی ہے اور نہ ہی دوپ کی تپش سے۔