جدید
تحقیقات کی روشنی میں اب تک جو معلومات فراہم ہوئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو ہزار
تین سو سال قبل مسیح میں وادیٔ سندھ ایک عظیم تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھی۔ اس وادی
میں ایک نہایت مضبوط حکومت قائم تھی جس کی بنیادیں صدیوں سے مستحکم چلی آ رہی تھیں
ان دنوں موہن جودڑو کو سندھ کے دارالخلافہ کی حیثیت حاصل تھی۔
موہن
جودڑو کا مطلب ہے ’’مرے ہوئے لوگوں کا ٹیلہ‘‘ کسی بلند مقام پر کھڑے ہو کر اگر ساری
بستی کا جائزہ لیا جائے تو موہن جودڑو کی یہ بستی چھ سات محلوں پر مشتمل معلوم ہوتی
ہے۔ ہر محلہ شمالاً جنوباً 1200 اور شرقاً غرباً 800 فٹ علاقے میں پھیلا ہوا ہے ان
محلوں کو وسیع شاہراہ ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں یہ شہر شکل و صورت میں جزائربرطانیہ
کے قدیم شہروں سے ملتا جلتا ہے جس طرح آئرلینڈ کا سمندر، انگلینڈ سے آئرلینڈ کو جدا
کرتا ہے بالکل اسی طرح دریائے سندھ کی قدیم طغیانی نے شاید ’’اسٹوپہ علاقے‘‘ کو ایک
دوسرے خطے سے الگ کر دیا تھا اور اب یہ کھنڈرات دو بڑے حصوں میں منقسم ہیں ایک بالائی
شہر اور ایک نشیبی شہر، بالائی شہر ایک بیضوی ٹیلے پر قدیم آبادی کے مغربی سرے پر واقع
ہے اس شہر میں اسٹوپہ، ایک حوض، درسگاہ اور بڑے ستونوں والا ہال خاص طور پر قابل ذکر
ہیں جبکہ نشیبی شہر میں رہائشی مکانات، دکانیں، کھلی سڑکیں اور گلیاں ہیں۔ ان کھنڈرات
میں موجودہ طرز تعمیر کی جھلک بھی بخوبی نظر آتی ہے ان آثار اور کھنڈرات کو دیکھ کر
ایک انگریز نے کہا تھا کہ ’’میں ان کھنڈرات میں کھڑے ہو کر یوں محسوس کر رہا ہوں جیسے
لنکا شائر‘‘ کے کھنڈرات میں کھڑا ہوں۔
1922ء
میں سرجان مارشل نے موہن جودڑو کے ٹیلے کی باقاعدہ کھدائی شروع کروائی ان دنوں آپ برصغیر
میں محکمہ آثار قدیمہ کے ناظم اعلیٰ تھے۔ اس کھدائی سے تاریخ کے ہزاروں سربستہ رازوں
کا انکشاف ہوا۔ ان رازوں کے افشاء ہونے سے قبل ہندوؤں کی مقدس کتابوں، قدیم تاریخوں،
غیر ملکی سیاحوں اور مشہور چینی سیاح ہیون سانگ کے تذکروں کی روشنی سے صرف یہی معلوم
ہوتا رہا کہ آریوں کی آمد سے قبل برصغیر میں وحشی اور غیر متمدن لوگ آباد تھے ان کا
کوئی مذہب نہیں تھا کوئی تہذیب نہیں تھی۔ یہ لوگ سیاہ فام تھے ان کی ناک چپٹی تھی جو
چہرے پر نہ ہونے کے برابر تھی ان لوگوں کو آریوں نے حملہ کرکے مغلوب کر لیا اور غلام
بنا لیا ۔
مگر
موہن جودڑو کی کھدائی کے بعد یہ تاریخ غلط ثابت ہوئی۔ آریوں کے حملے کے وقت برصغیر
کا امیر طبقہ دولت کی وجہ سے عیش و عشرت میں مگن تھا اور دولت سمیٹنے کا جذبہ شدت اختیار
کر جانے کی وجہ سے ان لوگوں میں بہادری اور قربانی کا جوہر بالکل ختم ہو چکا تھا۔ یہی
وجہ ہے کہ وہ آریوں سے مغلوب ہوگئے ورنہ 500 سال قبل وادی سندھ میں ایسے ذہین اور باشعور
لوگ آباد تھے جو اس دور کی کسی بھی متمدن انسانی تہذیب سے پیچھے نہ تھے۔ موہن جودڑو
کے ہزاروں سال پرانے تعمیر کردہ کنوئیں، ملبہ اور گارا نکالنے کے بعد صاف اور ٹھنڈا
پانی دے رہے ہیں اس شہر کے لوگ صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے گندے پانی کے نکاس کا جو
طریقہ موہن جودڑو میں پایا گیا ہے اس دور میں روئے زمین پر کسی بھی تہذیب میں اس کا
سلیقہ نہیں تھا۔ گلیوں اور سڑکوں کے دونوں طرف گندے پانی کے نکاس کے لیے نالیاں تعمیر
کی جاتی تھیں جنہیں پتھر کی سلوں سے ڈھانپ دیا جاتا تھا اور صفائی کے وقت انہیں اٹھالیا
جاتا تھا موہن جودڑو میں بعض ایسی عمارتیں ملی ہیں جن پر حمام ہونے کا گمان ہوتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment