Saturday, 13 December 2014

قلات کا قلعہ میری

ویسے تو بلوچستان میں ’’قلعہ میری‘‘ کے نام کے دو قلعے موجود ہیں۔ ایک ’’قلعہ میری‘‘ کوئٹہ چھاؤنی میں ہے۔ یہ مٹی کا بنا ہوا ہے دوسرا قلات میں ہے۔ ’’ قلعہ میری‘‘کوئٹہ کو دور سے دیکھیں تو ایک پراسرار افق کے طور پر دکھائی دیتا ہے اس قلعے پر انگریزوں نے 1875ء کے بعد قبضہ کیا تھا اس وقت یہ قلعہ خان قلات کی ملکیت تھا۔ انگریزوں نے اسے 99 سال کے لیے خان قلات سے مانگا تھا اور اسے Arsenal کے طور پر استعمال کیا تھا۔

دوسرا’’قلعہ میری‘‘ قلات ہے جو آج میری پوسٹ کا موضوع ہے ۔کوئٹہ کی جانب سے سفر کیا جائے تو جنوبی مغرب کے درمیان ایک سڑک’’ہائی وے‘‘ کے نام سے موسوم ہے لہٰذا سفر میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی ایک سیاح آسانی سے قلات تک پہنچ سکتا ہے۔ قلعہ میری یوں تو فوجی مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا اسے مٹی کے ایک ٹیلے پر تعمیر کیا گیا کہ اس کی بھول بھیلوں میں اسلحہ رکھا جاتا تھا۔ انگریزوں کو اس کی تعمیر میں پراسراریت دکھائی دی تو انہوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ جس کی بناء پر بلوچوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔ لوگ قلعہ میری کوئٹہ کا نام لے کر اب بھی اس کا احترام کرتے ہیں جب انگریز کوئٹہ پر قابض ہوئے تو خان قلات جو اس وقت ایک وسیع ریاست کا مالک تھا۔ اس نے قلات میں ایک انوکھے ڈیزائن پر ’’قلعہ میری‘‘ تعمیر کرایا۔ آج بھی یہ قلعہ علیحدگی اور حرمت کے تصور کے پیش نظر استحکام اور اکملیت کی روشنی رکھتا ہے۔

قلعہ میری کی آب و تاب اس کے ن منفرد ڈیزائن میں ہے۔ اس کی تعمیر کے بارے میں کوئی مستند تاریخی روایت نہیں ملتی۔ اسے جس کسی نے بھی تعمیر کروایا اس نے خان قلات سے ہدایات حاصل کیں اور بلوچستان میں نئے مظہر کی شکل میں اسے دیکھا اور اسے جدید رجحان کی مثال بنایا۔ شاید خان قلات کے ذہن میں جدیدیت کا کوئی نمونہ ذہن میں موجود ہو اس لیے انہوں نے انسانی غیظ و غضب کی بجائے ایک نئے انداز سے قلات پر حکمرانی کی ابتداء کی تھی۔ والیائی ریاست تحفظ کے احساس کے تحت اپنی ہبیت کے لیے گرانڈیل قلعے تعمیر کراتے ہیں مگر خان قلات نے ایک وسیع قطعہ اراضی پر سبز گھاس لگا کر نیلے سمندر کا خاکہ بنایا۔ اس کے ساحل پر سمندری جہاز کو لنگر انداز دکھا کر نہ جانے کون سے تصور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔

قلعہ میری کی تعمیر سمندری جہاز کی شکل میں کی گئی ہے۔ قلعہ کے سامنے ایک وسیع سرسبز میدان ہے اس کے دامن میں چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اور جنوب کی طرف وسیع جنگل ہے۔ اس جنگل کے دامن میں قلات بازار کا تجارتی مرکز ہے قلعہ کے جنوبی سطح پر ملحق ایک چھوٹی سی مسجد ہے اور قرآن خوانی کے لیے لمبے لمبے لکڑی کے تختے ہیں۔ انگریزی تسلط کے عہد میں آخری خان قلات کے چچا اس کا والی تھا اس زمانے میں انگریزوں کی طرف سے پولیٹیکل ایجنٹ اور دیوان مقرر کیے جاتے تھے۔ ان دیوان حضرات میں ایک صاحب اقتدار نے ایسی اندھیر گردی مچائی کہ آج تک اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ 1857ء سے 1957ء تک بھی یہ قلعہ سازشوں کا مرکزرہا۔


اگر کبھی موقع ملے تو اس قلعہ کو آپ ضرور وزٹ کریں۔

0 comments:

Post a Comment