Thursday, 11 December 2014

پاکستان کا تاریخی ورثہ کافر کوٹ کے کھنڈرات

ماضی میں وسط ایشیا سے تجارتی قافلے اور جنگ جو حملہ آور درہ گومل کے راستے بر صغیر میں داخل ہوتے رہے ۔ یہ لوگ ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب دریائے سندھ کے کنارے پڑاؤ ڈالتے تھے ۔ دوسری طرف دریائے سندھ کے ذریعے تجارتی مال کشتیوں کے ذریعے مختلف اطراف روانہ کیا جاتا تھا ۔ دریائے سندھ عبور کرنے کے بعد تجارتی قافلوں اور حملہ آوروں کی اگلی منزل ملتان ہوا کرتی تھی ۔ ملتان کے بعد پاک پتن ، دیپال پور ، لاہور اور دہلی کا رخ کیا جاتا تھا عموماً ملتان کے قریب ہی ان حملہ آوروں کو روک دیا جاتا تھا ۔

دریائے سندھ کا بیشتر حصہ پہاڑوں کے دامن میں ہے ۔ دریائے سندھ کے کنارے واقع پہاڑیوں کی چوٹیوں پر قدیم قلعوں ، عبادت گاہوں اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار ملتے ہیں ۔ ایسے ہی آثار ڈیرہ اسماعیل خاں شہر سے 39میل کی طرف خیسور پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہیں ۔ یہ آثار کافر کوٹ کے نام سے مشہور ہیں ۔ کسی زمانے میں دریائے سندھ کافر کوٹ کے پہاڑوں کے نیچے بہتا تھا جس پہاڑ پر یہ کھنڈرات ہیں اس کے مشرق کی جانب آ بی گذر گاہ ہے ۔ ماضی میں وسط ایشیا ، افغانستان برصغیر کو ملانے والی شاہراہ اس علاقے سے گزرتی تھی ۔ کافر کوٹ کے کھنڈرات کو نوکیلے تراشے ہوئے پتھروں اور خاردار جھاڑیوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔

پہاڑوں کی چوٹی پر ہونے کی وجہ سے یہ آثار قدیمہ ابھی تک محفوظ ہیں ۔ مسلمان اس قلعے کوکافر کوٹ کے نام سے پکارتے ہیں ۔ہندو اسے "راجہ بل" کا قلعہ کہتے تھے ۔ قلعے میں موجود مندروں کی تعدادسات کے لگ بھگ ہے ۔ یہ مندرماضی میں بہت خوبصورت اور شاندار تھے ان کے آثار ان کی عظمت رفتہ کی شہادت دیتے ہیں ۔ قدیم دور کے یہ محل اور مندر راجہ بل نے تراشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کروائے تھے ان کی طرز تعمیر قلعہ نندنا ، ضلع جہلم ، کٹاس کے مندر ، قلعہ ملوٹ ، ضلع چکوال ، ماڑی شہر ضلع میانوالی سے ملتی جلتی ہے ۔

یہ مندر پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہیں ۔ قلعہ نندنا ایک دشوار گذار پہاڑی علاقے میں ہے ۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنے دسویں حملے میں راجہ نند پال کو شکست دی تھی قیاس ہے کہ کافر کوٹ کا قلعہ اور مندر بھی سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں برباد ہوئے ۔ کافر کوٹ کے قلعے کے اندر ایک تالاب بھی تھا جس میں بارش کاپانی جمع ہو جاتا تھا۔ محلات اور فصیل کے آثار اب بھی موجود ہیں ۔ ان کھنڈرات میں جیل خانے کے آثار بھی پائے جاتے ہیں ۔ کافر کوٹ کے کھنڈرات کے تین اطراف بلند و بالا پہاڑ اور گہری کھائیاں ہیں ۔ ماضی میں قلعے یا حکمرانوں کے محل پہاروں پر تعمیر کئے جاتے تھے تا کہ وہ دشمنوں اور حملہ آوروں سے محفوظ رہ سکیں ۔

کافرکوٹ کے مندروں کے اطراف نہایت خوبصورت ڈیزائن بنائے گئے ہیں جو کاریگروں کی مہارت کا ثبوت ہیں پہاڑی پر چڑھنے کیلئے پرانے زمانے کی ایک سڑک کے آثار پائے جاتے ہیں ۔ یہ قلعہ دفاعی لحاظ سے محفوظ مقام پر بنایا گیا تھا ۔ کافر کوٹ کے شہر کے اردگرد پتھر کی بنی ہوئی مضبوط فصیل تھی جس میں حفاظتی مورچے بنے ہوئے تھے مندروں کے اندر ہندو پوجا پاٹ کرتے اور دیگرمذہبی رسومات ادا کرتے تھے ۔

کہا جاتا ہے کہ جس علاقے میں کافر کوٹ کے کھنڈرات پائے جاتے ہیں وہاں صدیوں قبل ہندو راجہ بل کی حکومت تھی جس کا پایہ تخت بلوٹ تھا ۔اسے بل کوٹ یا بلوٹ کہا جاتا ہے ۔ بل کا چھوٹا بھائی ٹل اوٹ نامی شہر کا بانی تھا تیسرا بھائی اکلوٹ تھا جو اکرہ نامی شہر کابانی تھا ۔ اکرہ سر سبز و شاداب اور خوشحال شہر تھا جو سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں تباہ ہوا ۔ کافر کوٹ کے پراسرار کھنڈرات اپنی تاریخ بیان کرنے کو بے تاب ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کافر کوٹ کے کھنڈرات پر خصوصی توجہ دے ان تباہ شدہ قلعوں کے اسرار سے پردہ اٹھائے اور ان پر تحقیق سے آشنا کیا جائے ۔ ہمارے ملک میں آثار قدیمہ سے جو بے اعتنائی برتی جا رہی ہے اس کی مثال کافر کوٹ کے کھنڈرات ہی نہیں بلکہ پو ٹھوہار کے علاقے میں واقع قلعہ دان گلی ، قلعہ پھروالا ، قلعہ روات کے علاوہ کوہستان نمک کے علاقے میں قلعہ کسک ملوٹ ، راج کٹاس ، شیو گنگا اور ماڑی میانوالی کے مندروں کی بھی یہی صورتحال ہے اگر حکومت خصوصاً محکمہ آثار قدیمہ نے ان آثار پر فوری توجہ نہ دی تو ہم اپنے اس عظیم سرمائے سے محروم ہو جائیں گے ۔(بشکریہ دنیا نیوز بحوالہ پاکستان کا تاریخی ورثہ)


0 comments:

Post a Comment