یہ ایک مسلمہ
حقیقت ہے کہ دینا میں انسان کسی بھی مذہب، گروہ ، فرقے، قوم یا ملک سے ہو اسے خوشی
چاہیے۔ وہ خوش ہونا ،ہنسنا اور مسکرانا چاہتا ہے،وہ تہوار منانا چاہتا ہے۔ مذہب
انسان کی اس فطرت سے واقف ہے لھٰذا وہ اسے تقریبات، عیدیں اور تہواروں کی اجازت
دیتا ہے۔ انسانی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تو اکثر و
بیشترحدود اللہ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آسمانی مذاہب نے ان تقریبات ،
عیدوں اور تہواروں کو پاکیزہ رکھنے کی ہمیشہ تاکید کی ہے۔ لیکن حضرت انسان کی
خواہش کی تکمیل کے آگے جہاں مقدس الہامی کتب اور صحائف نہ بچ سکے وہاں یہ بے چاری
عیدیں اور تہوار کیا چیز ہیں۔
کرسمس(Christmas)
دو الفاظ ChristاورMassکا مرکب ہے۔Christمسیح علیہ السلام کو کہتے ہیں اور Massاجتماع، اکٹھا ہونا، یعنی مسیح علیہ السلام کے لیے اکٹھا ہونامسیحی اجتماع یا میلاد مسیح۔ یہ لفظ تقریبا
چوتھی صدی عیسوی کے قریب قریب پایا گیا اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں
ملتا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا اور منایا
جاتا ہے۔ اسے یول ڈے نیٹوئی اور نوائل جیسے ناموں سے بھی منایا جاتا ہے۔(نوائے
وقت،27دسمبر2005ء)
بڑا دن بھی
کرسمس کا مروجہ نام ہے۔ یہ یوم ولادت مسیح علیہ السلام کے سلسلہ میں منایا جاتا ہے کیونکہ
مسیحیوں کے لیے یہ ایک اہم اور مقدس دن ہے اس لیے اسے بڑا دن کہا جاتا ہے۔ رومن
کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسائی اسے 25دسمبر ، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسیا 6جنوری کو اور
آرمینیہ کلیسیا 19جنوری کو مناتی ہے۔ کرسمس کے تہوار کا 25دسمبر پر ہونے کا ذکر
پہلی مرتبہ شاہِ قسطنطین کے عہد میں 325عیسوی کو ہوا۔ یہ بات صحیح طور پر معلوم
نہیں کہ اولین کلیسیائیں بڑا دن مناتی تھیں یا نہیں۔
یاد رہے کہ مسیح
علیہ السلام کی صحیح تاریخ پیدائش کا کسی کو علم نہیں۔ تیسری صدی میں اسکندریہ کے
کلیمنٹ نے رائے دی تھی کہ اسے 20مئی کو منایا جائے لیکن 25دسمبر کو پہلے پہل روم
میں اس لیے مقرر کیا گیا تا کہ اس وقت ایک غیر مسیحی تہوار جشن زحل کو Saturnalia(یہ رومیوں کا ایک بڑا تہوار تھاجس
میں رنگ رلیاں منائی جاتی تھیں) جو راس الجدی کے موقع پر ہوتا تھاپس پشت ڈال کر اس
کی جگہ مسیح علیہ السلام کی سالگرہ منائی جائے۔(قاموس الکتاب، صفحہ147)۔
اس کے علاوہ
کینن فیرر نے بھی اپنی کتاب "لائف آف کرائسٹ" میں اس بات کا اعتراف کیا
ہے کہ مسیح علیہ السلام کی تاریخ ولادت کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔ انجیل سے صرف یہ
بات معلوم ہوتی ہےکہ اس رات گڈرئیے بھیڑوں کو لیے ہوئے بیت اللحم کے کھیتوں میں
موجود تھے۔ لیکن انسائیکلوپیڈیا برناٹیکا میں کرسمس ڈے پر آرٹیکل لکھنے والے نے اس
پر ایک نہائت عمدہ تنقید کی ہے، وہ لکھتا ہے : دسمبر کا مہینہ تو ملک یہودیہ میں
سخت بارش کا مہینہ ہے۔ ان دنوں بھیڑیں اور گڈرئیے کس طرح کھلے آسمان تلے رہ سکتے
ہیں۔
4صدیوں تک
25دسمبر تاریخ ولادتِ مسیح علیہ السلام نہیں سمجھی جاتی تھی۔530عیسوی میں سیتھیا
کا ایک راہب ڈایونیس اکسیگز نامی جو منجم(ستاروں کا علم رکھنے والا)بھی تھا تاریخ
ولادت مسیح علیہ السلام کی تحقیق اور تعین کے لیے مقرر ہوا۔ سو اس نے حضرت مسیح
علیہ السلام کی ولادت 25دسمبر مقرر کی۔ کیونکہ مسیح علیہ السلام سے پانچ صدی قبل 25دسمبر
مقدس تاریخ تھی۔ بہت سے سورج دیوتا اسی تاریخ پر یا اس سے ایک دو دن بعد پیدا ہونا
تسلیم کیے جا چکے تھے۔ چنانچہ راہب آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو مقبول بنانے
کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخِ ولادت 25دسمبر مقرر کر دی۔ قرآن مجید کی
سورۃ مریم پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مریم علیھا السلام کو دردِ زہ ہوئی
تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کی کہ کھجوروں کے تنے کو ہلائے تا کہ ان پر تازہ
پکی کھجوریں گریں اور وہ اس کو کھائیں اور چشمے کا پانی پی کر طاقت حاصل کریں۔ اب
فلسطین میں موسمِ گرما کے وسط یعنی جولائی ، اگست میں ہی کھجوریں ہوئی ہیں۔ اس سے
بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہےکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت جولائی یا اگست کے
کسی دن میں ہوئی تھی اور 25دسمبر کی تاریخ غلط ہے۔(مذاہبِ عالم کا تقابلی
مطالعہ،صفحہ:435)۔
جرمن قبائل قدیم
زمانہ سے اس موسم کو تعظیم اور تکریم کا موسم سمجھتے تھے سیکنڈ ڈے نیویا کے قدیم
باشندوں کا عقیدہ تھا کہ تمام دیوتا 25دسمبر کو زمین پر اترے ہیں اور 6جنوری تک
انسانوں کی تقدیر بدلنے کی تدبیر کرتے رہے ہیں۔(ذکرِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم)۔
اس ضمن میں ایک
دلچسپ واقعہ یہ بھی ملتا ہے کہ چوتھی صدی عیسوی کے آغاز میں روم شہر میں مشعلیں
بنانے والے ایک صاحب نے ایک ایسی مشعل بنائی کہ جس میں تیل نہیں ڈالنا پڑتا تھا
جسے بعد میں کینڈل یا موم بتی کا نام دیا گیا ۔ یہ تیل والی مشعلوں کے مقابلے میں
گھنٹوں زیادہ چلتی ۔ یہ ایک زبردست ایجاد تھی جس کے ذریعے وہ دنوں میں امیر ہو گیا
، لھٰذا اب یہ شخص موم بتی کی وسیع فروخت کا خواہاں ہوا اس نوجوان کے حلقہ احباب
میں روم شہر کا ایک پادری بھی تھا۔ ایک دن نوجوان نے اپنے پادری دوست کے سامنے اپنی
خواہش کا اظہار کیا تو پادری نے اس کو سمجھایا کہ دنیا میں جو چیز مذہب کے ساتھ
منسوب ہو جائے اسے دوام مل جاتا ہے۔ایک دن پادری اس نوجوان کی دکان پر آیا اور
نوجوان نے پادری کے کان میں سرگوشی کی تو پادری کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ اتفاق سے
وہ اتوار کا دن اور 25دسمبر تھا۔ اس روز پادری نے سروس یعنی عبادت کے بعد ایک عجیب
اعلان کیا کہ آپ تمام حضرات سورج ڈوبنے کے بعد دوبارہ چرچ میں آئیں، آج ایک ایسے
خصوصی طریقے سے دعا مانگوں گا کہ دعا مانگنے سے پہلے ہی قبول ہو جائے گی۔ جنانچہ
لوگ شام کو چرچ میں جمع ہو گئے اور جب خوب اندھیرا پھیل گیا تو پادری نے تمام
حاضرین کے سامنے ایک ایک موم بتی جلا دی اور لوگوں سے آنکھیں بند کر کے دعا کرنے
کی درخواست کی ۔ یہ دیا گھنٹوں چلتی رہی اور ساتھ موم بتیاں بھی۔ دعا کے بعد جب
لوگوں کی واپسی شروع ہوئی تو ان کے ہونٹوں پر اس نئے طریقے کی دعا کی مقبولیت کا
چرچا تھا۔یہ 336عیسوی کا 25دسمبر تھا۔(سازشین بے نقاب)۔
مذکورہ بالا
حوالہ سے یہ بات تو روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ 25دسمبر مسیح علیہ السلام کی یوم ولادت
نہیں اور قاموس الکتاب کے حوالہ سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ "جشنِ
زحل"(رومیوں کا تہوار)جو عیاشیوں کی نظر ہو چکا تھا کو ایک مقدس تہوار سے بدل
دیا گیا تا کہ لوگوں کا رجحان مذہب کی طرف ہو جائے مگر کس کو معلوم تھا کہ یہ مقدس
تہوار جشنِ زحل سے بھی خطرناک صورت حال اختیار کر جائے گا۔بعض روایات سے یہ بھی
معلوم ہوتا ہے کہ اس تہوار کا آغاز روم میں 336عیسوی میں ہوا۔ ان دنوں گرجا گھروں
اور بادشاہوں میں بڑا اتفاق ہوتا تھا۔بادشاہوں کو غیر اخلاقی ، غیر شرعی احکام کی
تصدیق کے لیے چرچ کی مدد درکار ہوتی تھی، اور پادری بھی بادشاہ کے ایما پر ایسے
احکامات جاری کر دیا کرتے تھے۔ بہر حال کرسمس کے تہوار کو پادریوں نے دربار تک
پہنچا ہی دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شہرت اتنی بڑھی کہ دو تین برسوں ہی میں یہ
تہوار سرکاری سرپرستی میں چلا گیا۔ روم کے بعد جرمنی دوسرا علاقہ تھا جس میں کرسمس
منائی جانے لگی۔ وہاں بھی اس تقریب کو سرکاری تقریب کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اس زمانے
جرمنی کسی خاص ملک یا سلطنت کا نام نہیں تھا۔ یہ رومی سلطنت کا ایک مفتوحہ علاقہ
تھاجس میں چھوٹے چھوٹے سرداروں کی حکومتیں تھیں۔ یہ سردار ابتدا میں کرسمس منانے
روم جاتے تھے۔ واپس آکر جب اپنے درباریوں کو واقعات سناتے تو وہ حیرت کا اظہار
کرتے۔ بعد ازاں جرمن نے مقامی سطح پر کرسمس کا اہتمام کیا، اس دن کے بعد تمام جرمن
قبائل اپنے اپنے قبیلے میں کرسمس منانے لگے۔ یوم روم کے بعد اس خطے میں بھی کرسمس
منائی جانے لگی جسے آج دنیا جرمنی کا نام دیتی ہے۔
حضرت عیسٰی علیہ
السلام کی تاریخ پیدائش نہ تو انجیل سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی اور مستند ذریعے سے
اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تین صدیوں تک میلادِ مسیح علیہ
السلام کو منانا مشرکانہ اور بت پرستانہ فعل سمجھا جاتا تھا۔ بعد ازاں مختلف چرچوں
کی طرف سے اس خود ساختہ رسم کی روک تھام کے لیے متعدد احکامات بھی جاری کئے
گئے۔(تفصیل کے لیے دیکھئے: Collier's
انسائیکلوپیڈیا)۔
کرسمس کے دوران "کرسمس
ٹری"کا تصور بھی جرمنوں ہی کا پیدا کردہ ہے۔ یہ لوگ کرسمس کے دن حضرت مریم
علیھا السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کا کردار
مختلف اداکاروں کے ذریعے ایک ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے اور تمام واقعہ دہراتے جو
مریم علیھا السلام کے ساتھ مسیح علیہ السلام کی ولادت کے ضمن میں پیش آیا۔ اور اس
واقعے کے دوران درخت کو مریم علیھا السلام کا ساتھی بنا کر پیش کیا جاتا، وہ اپنی
ساری اداسی اور ساری تنہائی اس ایک درخت کے پاس بیٹھ کر گزار دیتیں۔ چونکہ یہ درخت
بھی سٹیج پر سجایا جاتا تھا اور ڈرامے کے اختتام پر لوگ اس درخت کی ٹہنیاں تبرک کے
طور پر اکھیڑ کا ساتھ لے جاتے اور اپنے گھروں میں ایسی جگہ لگا دیتے جہاں ان کی
نظریں ان پر پڑتی رہیں ۔ یہ رسم آہستہ آہستہ کرسمس ٹری کی شکل اختیار کر گئی اور
لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں کرسمس ٹری بنانے اور سجانے شروع کر دئیے۔ اس ارتقائی
عمل کے دوران کسی ستم ظریف نے اس پر بچوں کے لیے تحائف بھی لٹکا دئیے جس پر یہ
تحائف بھی کرسمس ٹری کا حصہ بن گئے۔کرسمس ٹری کی بدعت انیسویں صدی تک جرمنی تک
محدود رہی۔ 1847عیسوی کو برطانوی ملکہ وکٹوریہ کا خاوند جرمنی گیااور اسے کرسمس کا
تہوار جرمنی میں منانا پڑا تو اس نے پہلی مرتبہ لوگوں کو کرسمس ٹری بناتےاور سجاتے
دیکھاتو اسے یہ حرکت بہت بھلی لگی ،لھٰذا
وہ واپسی پر ایک ٹری ساتھ لے آیا۔ 1848عیسوی میں پہلی مرتبہ لندن میں کرسمس ٹری
بنوایا گیا، یہ ایک دیو ہیکل کرسمس ٹری تھا جو شاہی محل کے باہر آویزاں کیا گیا
تھا۔ 25دسمبر 1848ء کو لاکھوں لوگ یہ درخت دیکھنے لندن آئے اور اسے دیکھ کر
گھنٹوں تالیاں بجاتے رہے۔ اس دن سے لے کر آج تک تقریبا تمام ممالک میں کرسمس ٹری
ہر مسیحی گھر میں بنایا جاتا ہے۔(ایوری مینز انسائیکلوپیڈیا، نیو ایڈیشن1958ء)۔
کرسمس کا آغاز
ہوا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں مذہبی رجحان پیدا کیا جائے یا یہ کہہ سکتے
ہیں کہ یہ ایک ایسی بدعت تھی جس کی واحد فضول خرچی موم بتیاں تھیں لیکن پھر کرسمس
ٹری آیا، پھر موسیقی، پھر ڈانس آخر میں شراب بھی اس میں شامل ہو گئی۔ شراب کے داخل
ہونے کی دیر تھی کہ یہ تہوار عیاشی کی شکل اختیار کر گیا۔ صرف برطانیہ کا یہ حال
ہے کہ ہر سال کرسمس پر وہاں کروڑوں پاؤنڈ کی شراب پی جاتی ہے۔ 25دسمبر 2005ء کو آبرو ریزی اور زیادتی کے 19ہزار کیس درج ہوئے ۔ سروے کے
مطابق برطانیہ کے ہر 7میں سے ایک نوجوان نے کرسمس پر شراب نوشی کے بعد بدکاری کا
ارتکاب کیا۔ امریکہ کی حالت اس سے بھی گئی گزری ہے کہ امریکہ میں ٹریفک کے قوانین
کی اتنی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں کہ پورا سال نہیں ہوتیں۔ 25دسمبر کو ہر شہری کے منہ
سے شراب کی بدبو آتی ہے۔ شراب کے اخراجات 14ارب ڈالر تک پہنچ جاتے ہیں۔ صرف
اٹلانٹک سٹی کے جوا خانوں میں اس روز 10ارب روپوں کا جوا ہوتا ہے۔ لڑائی اور مار
کٹائی کے واقعات کی 6لاکھ اطلاعات آتی ہیں۔ 25دسمبر 2005ء کثرت شراب نوشی کی وجہ سے حادثوں کے دوران کرسمس کے روز اڑھائی
ہزار امریکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، پانچ لاکھ خواتین اپنے بوائے فرینڈز اور خاوندوں
سے پٹیں۔ لھٰذا اب تو یورپ میں ایسے قوانین بن رہے ہیں کہ جن کے ذریعے شہریوں کو
یہ تلقین کی جاتی ہے کہ وہ کرسمس کی عبادت کے لیے اپنے قریب ترین چرچ میں جائیں،
شراب نوشی بعد اپنی گلی سے باہر نہ نکلیں۔ خواتین بھی اس خراب حالت میں اپنے بوائے
فرینڈز اور خاوندوں سے دور رہیں۔ (مذکورہ بالا اعدادوشمار 2004ء اور 2005ء کے ہیں)۔
ہم مسلمان بھی
اپنی عیدوں پرقدرت کے اس قانون کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں اور طرح طرح کی بدعتوں کا
شکار ہو چکے ہیں، البتہ عیسائی دنیا مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں آگے ہے۔اب تو
عیسائیوں کے اندر بھی ایسے گروہ پیدا ہو چکے ہیں جو کرسمس کو پسند نہیں کرتے، یہ
لوگ اس تہوار پر مختلف اعتراضات کرتے ہیں، مثلا مسیح علیہ السلام نے اپنی زندگی
میں کرسمس نہیں منائی، اس کے بعد بھی ساڑھے تین سو سال تک اس تہوار کا نام و نشان
نہیں تھاجس سے کرسمس کی حقیقت مشکوک ہو جاتی ہے۔ ان لوگون کا کہنا ہے: ملٹی نیشنل
کمپنیوں نے کرسمس کو سپانسر کر کے اسے مذہبی تہوار کے بجائے دکانداری بنا دیا ہے۔ عیسائی
مذہب اور اس کے تہواروں میں درخت کی کوئی گنجائش نہیں۔ انجیل میں واضح الفاظ میں
یہ حکم موجود ہے: درخت کاٹ کر اور اسے مصنوعی طریقے پر صحن میں نا گاڑا جائے۔ بائبل میں تقریبا 38مقامات سے یہ دلیل دی جاتی
ہے کہ عیسائیت میں شراب نوشی حرام ہے جبکہ اس روز شراب نوشی اہتمام کے ساتھ کی
جاتی ہے۔(سازشیں بے نقاب)۔
خلاصہ:
ہر نبی اور رسول
نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا کہ تم لوگ اپنی خوشیوں کو احتیاط کے دامن میں
سمیٹے رکھو، اسے عیاشی اور ہلے گلے کی نظر نہ کرو۔ مگر انسان نے خوشیاں منانے کے
سلسلے میں ہمیشہ قدرت کے اس قانون کی خلاف ورزی کی ۔ مذکورہ بالا تفصیلات سے کرسمس
کی حقیقت سمجھنے میں آسانی ہو گئی کہ اس
کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اسے خواہ مخواہ اس کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے۔ جناب
مسیح علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا حتمی علم نہ ہونا اور ابتدائے مسیحیت میں اس
دن کے منانے کا عدم ثبوت اسے تقویت پہنچاتا ہے۔ کیونکہ اگر کسی بھی مذہب کے مخصوص
تہواروں میں ان کے ماننے والے مختلف نظر آئیں تو اس کا لازمی مطلب ہے کہ اس مذہب
کے بانی اور اس کے اولین پیرو میں یہ ناپید تھا۔
قرآن مجید ایسی
نے ایسی باتوں کے حوالے سے ہی فرمایا: (مالھم بہ من علم ولا لآبآئھم کبرت کلمۃ
تخرج من أفواھھم إن یقولون إلا کذبا) "نہ انہیں اس(بات )کا کوئی علم ہے اور
نہ ان کے باپ دادا کو، بڑی(ہی خطرناک)بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے، وہ تو
سرا سر جھوٹ ہی بکتے ہیں۔"(الکھف 5:18)۔
"اور یہود
کہتے ہیں عزیر علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں مسیح علیہ السلام
اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل
کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے علماء، مشائخ اور مسیح ابن مریم علیھما السلام کو اللہ کے سوا رب
بنا لیا ہے حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ
کریں او کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔ "(سورۃ
توبہ: 30-31)۔
اور آج کل کے
دور میں ہمارے کئی ماڈرن قسم کے مسلمان بھی ان عیسائیوں کو "ہیپی کرسمس"(نعوذ
باللہ۔ اللہ نے 25دسمبر کو بیٹا جنا) کہتے نظر آتے ہیں نہ ہی ان کو اس بات کا مطلب پتا ہے اور نہ ہی
وہ اپنے دین (اسلام) کو جانتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے اس طرح کی بات کہہ دیتے ہیں
۔
0 comments:
Post a Comment